ہٹلر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
:چھلانگ بطرف رہنمائی، تلاش
ایڈولف ہٹلر

ایڈولف ہٹلر 1938 میں

جرمنی کے فہرر
در منصب
2 اگست 1934 – 30 اپریل 1945
پیشرو پال وون ہنڈنبرگ
صدر
جانشین کارل ڈونٹز
صدر
نائب

(1933–1945)جرمن چانسلر
در منصب
30 جنوری 1933 – 30 اپریل 1945
صدر پال وون ہنڈنبرگ (تک 1934)
نائب
  • فرانز وون پاپن (1933–1934)
  • عہدہ خالی
پیشرو کرٹ وون سلیشر
جانشین جوزف گوبلز

پرشیا کے ریچسٹاٹہالٹر
در منصب
30 جنورد 1933 – 30 اپریل 1945
وزیرِ اعظم
  • فرانز وون پاپن
  • ہرمن گورنگ
پیشرو نیا عہدہ
جانشین عہدہ ختم کر دیا گیا

پیدائش 20 اپریل 1889 (1889-04-20)
برائناؤ ایم ان, آسٹریا - ہنگری
وفات 30 اپریل 1945 (عمر 56 سال)
برلن, نازی جرمنی
قومیت
  • 7 اپریل 1925 تک آسٹرین شہری
  • 25 فروری 1932 کے بعد جرمن شہر
سیاسی جماعت قومی سوشلسٹ جرمن ورکرز پارٹی (1921–1945)
دیگر سیاسی
الحاقات
جرمن ورکرز پارٹی (1920–1921)
ازواج ایوا براؤن
(29–30 اپریل 1945)
پیشہ سیاستدان، فوجی، فنکار، مصنف
دستخط
فوجی خدمات
وفاداری Flag of the German Empire.svg جرمن سلطنت
نوکری/شاخ جرمن آرمی، ریچشیر
نوکری کے سال 1914–1918
عہدہ جیفرائٹر
اکائی سولہویں
جنگیں پہلی جنگ عظیم
اعزازات
  • آہنی کراس درجہ اؤل
  • آہنی کراس درجہ دؤم
  • نشان زخم

ایڈولف ہٹلر 20 اپريل 1889ء كو آسٹريا كے ايك غريب گھرانے ميں پيدا ہوا۔ اس کی تعليم نہايت كم تھی۔ آسٹريا كے دارالحكومت ويانا كے كالج آف فائن آرٹس ميں محض اس لئے داخلہ نہ مل سكا كہ وہ ان كے مطلوبہ معيار پر نہيں اترتا تھا۔ 1913ء ميں ہٹلر جرمنی چلا آيا جہاں پہلی جنگ عظيم ميں جرمنی كي طرف سے ايك عام سپاہی كي حيثيت سے لڑا اور فوج ميں اس لئے ترقی حاصل نہ كر سكا كہ افسران كے نزديك اس ميں قائدانہ صلاحيتوں كی كمی تھی۔ 1919ء ميں ہٹلر جرمنی كي وركرز پارٹی كا ركن بنا جو 1920ء ميں نيشنل سوشلسٹ جرمن وركرز پارٹی (نازی) كہلائی۔ 1921ء ميں وہ پارٹی كا چيئرمين منتخب ہوا۔ 1930ء ميں منعقد ہونے والے انتخابات ميں نازی پارٹی جرمنی کی دوسری بڑی پارٹی بن گئی۔ 1933ء کے انتخابات میں نازی پارٹی اکثریت حاصل نہ کر سکی مگر سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے پریزیڈنٹ نے ہٹلر کو حکومت بنانے کی دعوت دی اور ہٹلر ملك کے سب سے اعلی عہدے چانسلر تک پہنچ گيا۔ چانسلر بننے كے بعد ہٹلر نے جو سب سے پہلا كام كيا، وہ نازی پارٹی كا فروغ تھا۔ اس مقصد كے ليے اس نے اپنے مخالفين كو دبانے کا ہر حربہ آزمايا۔ اس دوران اس نے ملك ميں بے روزگاری كے خاتمے اور دوسرے متعدد ترقياتی اقدامات كے ذريعے سے جہاں جرمنوں كی اكثريت كو اپنا گرويدہ بنايا وہاں انہيں يہ بھي بتايا كہ وہ دنيا كي عظيم ترين اور فاتح قوم ہيں۔

نازی جرمنی جنگ عظیم قبل اپنے عروج پر

1939ء میں ہٹلر کی جانب سے پولینڈ پر جارحیت دوسری جنگ عظیم کے آغاز کا باعث بنی۔

دوسری جنگ عظیم کے آخری ایام میں 30 اپریل 1945ء کو ہٹلر نے برلن میں اپنی زیرزمین پناہ گاہ میں اپنی نئی نویلی دلہن ایوان براؤن کے ساتھ خودکشی کرلی۔

ایک امریکی اخبار میں ہٹلر کی موت کی خبر

اس کے دور حکومت میں نازی جرمنی یورپ کے بیشتر حصے پر قابض رہا جبکہ اس پر 11 ملین یعنی ایک کروڑ 10 لاکھ افراد کے قتل عام کا الزام بھی لگایا جاتا ہے جن میں مبینہ طور پر 60 لاکھ یہودی بھی شامل تھے۔ یہودی ہٹلر کے ہاتھوں اس قتل عام کو ہولوکاسٹ کے نام سے یادکرتے ہیں۔

ان کا تحریک نازیت میں اہم قردار تھا۔

ابتدائی سال[ترمیم]

نسب[ترمیم]

ہٹلر کے والد الوئس ہٹلر (1837 - 1903)، ماریہ اینا شکلگربر کے بیٹے تھے۔ بیپٹسمل رجسٹر میں والد کا نام درج نا ہونے پر ان کے والد کی جگہ والدہ کا نام شکلگربر ہی لگا دیا گیا تھا۔ 1842 میں ان کی والدہ کی شادی جوہان جارج ہیڈلر نامی شخص سے ہوئی۔ 1847 میں ان کی والدہ اور 1856 میں ہیڑلر کے انتقال کے بعد، ہیڈلر کے بھائی جوہان نیپومک ہیڈلر نے ان کی پرورش کی۔ 1876 میں بیپٹسمل رجسٹر میں قانونی طور پر الوئس ہٹلر کے والد کا نام جوہان جارج ہیڈلر رجسٹر کیا گیا (ریکارڈ میں جارج ہٹلر موجود ہے)۔ وہاں سے الوئس نے اپنے خاندانی نام کی جگہ ہٹلر لگانا شروع کیا۔

نازی اہلکار ہانس فرانک کے مطابق الوئس کی والدہ ایک یہودی خاندان کے ہاں گراز میں گھرداری کا کام کرتی تھی اور اس خاندان کے 19 سالہ لیوپولڈ فرانکنبرگر الوئس کے والد ہیں۔ مگر کیونکہ اس دور میں گراز کے ریکارڈ میں کیس لیوپولڈ نامی شخص کا نام نہ ملنے پر تاریخدان اس دعویٰ کو رد کرتے ہیں۔

بچپن اور تعلیم[ترمیم]

ہٹلر کا بچپن (c. 1889–1890).

اڈولف ہٹلر کی پیدائش 20 اپریل 1889 میں آسٹریا-مجارستان کے شہر برائناؤ ایم ان کے ایک ہوٹل گاستھوف زم پومر نامی ہوٹل میں ہوئی جو سالزبرگر وورسٹاڈ 15 پر واقع ہے۔ یہ شہر باواریا، جرمنی کا پڑوسی شہر ہے۔ اسکی والدہ کلارا ہٹلر الوئس ہٹلر کی تیسری بیوی تھی۔ ہٹلر کا چھ بہن بھائیوں میں چوتھا نمبر تھا۔ ان بڑے بہن بھائیوں میں گستاو، ایدا اور اوٹو کا کم عمری ہی میں انتقال ہوگیا تھا۔ ہٹلر کی چھوٹی بہن پاؤلا ہٹلر ہھی جوانی کی عمر کو پہنچ سکی۔ جب ہٹلر تین سال کے ہوئے تو ان کا کنبہ پساؤ، جرمنی منتقل ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہان کا تلفظ آسٹرین جرمن کی جگہ لوئر باوارین تھا۔ 1894 میں ان کا کنبہ لیوڈنگ (لنز کے قریب) منتقل ہو گیا اور جون 1895 میں ان کی والد کی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ہیفلڈ (لیمبیک کے نزدیک) ایک زمین کے قطعے پر مکھیوں کی افزائش کرنے لگے۔ ہٹلر نے فشلہیم کے قریب ایک سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ انکے والد کی فرانسیسی جرمن جنگ 1870-71 پر مبنی تصویری کتاب نےان کی توجہ جنگ و جدل کی جانب لگانے میں بڑا کردار ادا کیا۔

ہیفلڈ میں اسکول کے سخت قوانین کی پاسداری نا کرنے پر ہٹلر کا اپنے والد سے شدید تناضع رہنے لگا۔ ان کے والد کا ہیفلڈ میں کھیتی کا کام نا چلا، اور 1897 میں یہ کنبہ لیمبیک کوچ کر گیا۔ آٹھ سالہ ہٹلر نے موسیقی کی تعلیم میں دلچسپی لی اور چرچ میں کوائر گائے، یہاں تک کے انہوں نے پادری بننے کا بھی سوچا۔ 189 میں یہ کنبہ مستقل طور پر لیوڈنگ واپس آگیا۔ 1900 میں ان کے چھوٹے بھائی ایڈمنڈ کی خسرہ سے موت نے ان پر گہرا اثر چھوڑا۔ اب ہٹلر ایک بااعتماد اور باضمیر طالبعلم سے ایک خاموش اور اداس شخصیت بن گئے تھے جن کا بات بے بات اپنے والد اور اساتذہ سے ان بن ہوتی رہتی تھی۔

اس دوران الوئس نے کسٹم بیورو میں ایک کامیاب ذریعہ معاش طلاش کرلیا تھا اور اپنے بیٹے کو اپنے نقش قدم پر چلانا چاھتے تھے۔ ہٹلر اس دوران کا ایک واقعہ رقم کرتے ہیں جس میں ان کے والد انہیں کسٹم آفس گھمانے لے گئے مگر وہاں ہونے والے اختلاف نے باپ بیٹے کے درمیان ایک کبھی نہ ختم ہونے والا خلاء پیدا کردیا۔ اپنے بیٹے کی مصور بننے کی خواہش کے خلاف ستمبر 1900 میں ہٹلر کو ریئلشول، لنز بھیج دیا گیا۔ اپنی کتاب مین کیمپ میں لکھتے ہیں کہ اس فیصلہ سے بغاوت کرتے ہوئے انہوں نے جان بوجھ کر تعلیم پریہ سوچ کر توجہ نہیں دی کہ شاید ان کی بری کارکردگی دیکھ کر ان کو اپنا خواب پورا کرنے کا موقع مل جائے۔

ہٹلر کی والدہ کلارا

دیگر آسٹرین جرمن نزاد افراد کیطرح کم عمری میں ہی ان میں جرمن قوم پرستی کے جذبات موجود تھے۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ملتے وقت جرمن خیرمقدم “ہیل“ اور آسٹرین امپیریل ترانہ کی جگہ “دشلیندلید“ گاتے تھے۔

3 جنوری 1903 میں والد کے انتقال کے بعد ہٹلر کی تعلیمی کارکردگی میں مزید خرابی کے بعد ان کی والدہ نے انہیں اپنی مرضی کی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دے دی جس کے بعد ستمبر 1904 میں ہٹلر نے ریئلشول، اسٹیر میں داخلہ لے لیا۔ 1905 میں تعلیمی سفر مکمل کرنے کے بعد کسی مزید تعلیمی یا معاشی سفر کا منصوبہ بنائے بغیر ہٹلر نے اسکول چھوڑ دیا۔

ویانا اور میونخ میں جوانی کے ابتدائی دن[ترمیم]

لیوڈنگ میں وہ مکان جہاں ہٹلر کا بچپن گزرا (تصویر c. 1984)

1905 کے بعد ہٹلر نے ویانا میں بوہیمین طرز زندگی اختیار کی، جس میں ان کی مالی معاونت ان کی والدہ نے یتیموں کے امدادی فنڈ سے کی۔ وہ کبھی کبھار مزدوری کر لیتے تھے مگر بالاخر انہوں نے مصوری کو اپنا ذریعہ معاش چنا اور آبرنگ بیچنا شروع کیا۔ اکیڈمی برائے فائن آرٹس ویانا نے 1907 اور 1908 میں دو بار رد کیا اور ڈائریکٹر نے انہیں ماہر تعمیرات بننے کا مشورہ دیا، جس میں ان کی تعلیمی قابلیت ناکافی تھی۔ 21 دسمبر 1907 میں ان کی والدہ 47 سال کی عمر میں انتقال فرما گئیں۔ اکیڈمیں سے دوسری بار رد ہونے کے بعد ہٹلر کی تمام جمع پونجی ختم ہوگئی اور1909 میں وہ بے آسرا لوگوں کی رہائش میں رہنے لگا اور اس کے بعد 1910 میں مکان برائے غریب محنتکش افراد میلدیمانسٹرابے میں بس گیا۔ اس دور میں ویانا مزہبی تعصب اور نسل پرستی کا مرکز تھا۔ عوام میں مشرقی سے ہجرت کرنے والی آبادیوں کے ہاتھوں قبضہ ہونے کا خوف عام تھا، اور عوام مقبول میئر کارل لیوگر یہود دشمن جزبات کو ذاتی سیاست چمکانے کے لیے ہوا دیتے رہے۔ ہٹلر کے ریائشی ضلع ماریاہلف میں بھی جارج شونیرر کے پین جرمنک یہود شمن جذبات عام تھے۔ اس دور کے اخبارات بھی اسی قسم کا مواد شائع کرتے تھے جن میں ایک ڈیوشس وولکسبلاٹ اکثر ہٹلر کی نظر سے گزرتا تھا اور اس میں مشرقی یہودی آبادیوں کے ہاتھوں عیسائیوں کے روندے جانے کے اندیشے کا کھلے عام اظہار کیا جاتا تھا۔ ان سب کے باعث نے مارٹن لوتھر کے نظریہ کی ستائش کرنی شروع کردی۔

ہٹلر کے ذہن میں یہود دشمن سوچ کی ابتداء کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ وہ اپنی کتاب مائن کیمف میں اس شوچ کو ویانا میں اپنانے کا اعتراف کرتے ہیں جبکہ انکے قریبی دوست آگسٹ کوبیزیک کے بقول ہٹلر لنز چھوڑنے سے قبل ہی اس قسم کے جذبات کے حامل تھے۔ اس کے برعکس کئی زرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کے ہٹلر کے ویانا کے ہاسٹل اور دیگر جگہوں پر کئی یہودی دوست تھے۔ تاریخدان رچرڈ ایونس لکھتے ہیں کے ”تاریخدان اب عام طور پر متفق ہیں کے ان کا انگشت نما، قاتلانہ یہود دشمن رویہ پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کا نتیجہ تھی“۔ اپنے والد کی جائداد کا آخری حصہ انہیں 1913 میں ملا اور وہ میونخ چلے گئے۔ تاریخدانوں کے مطابق یہ قدم انہوں نے آسٹرین فوج میں بھرتی نہ ہونے کے لئے اٹھایا تھا۔

hitler=== پہلی جنگ عظیم ===

سیاسی شمولیت[ترمیم]

بیئر ہال پٹش[ترمیم]

NSDAP کی تعمیر نو[ترمیم]

ہٹلر نے اس پارٹی کی قیادت سنبھالی تو اس کی بنیاد 27 نکات پر رکھی جن میں سے کچھ یہ ہیں ۔

  1. معائدہ ورسائی کا خاتمہ
  2. یہودیوں کے شہری حقوق کا خاتمہ
  3. جنگ سے منافع کمانے والوں کی جائیداد کی ضبطی۔[1]

طاقت کا سفر =[ترمیم]

بروننگ انتظامیہ[ترمیم]

چانسلر کے عہدہ پر تقرری[ترمیم]

ریچ اسٹیگ کی آگ اور مارچ انتخابات[ترمیم]

ہوسٹڈیم کا دن اور قانون کا نفاذ[ترمیم]

بقایا حدود کی برطرفی[ترمیم]

تیسری ریچ =[ترمیم]

معیشت اور ثقافت[ترمیم]

ازسرنو اسلحہ بندی اور نئے اتحاد[ترمیم]

دوسری جنگ عظیم[ترمیم]

ابتدائی سفارتی کامیابیاں[ترمیم]

جاپان سے اتحاد[ترمیم]

پاکستان زندہ باد

آسٹریا اور چیکوسلوواکیا[ترمیم]

دوسری جنگ عظیم کی ابتداء[ترمیم]

شکست کا سفر[ترمیم]

دنیزخوپصوخصطوص چ2ہچ خ2فط2 خفیگ فی چجعف3جف3 ف3فشکست اور موت[ترمیم]

مرگ انبوہ[ترمیم]

ہٹلر کی تقریریں۔ویڈیو[ترمیم]

ہٹلر جرمنی کا مقبول ترین لیڈر تھا ۔تاریخ انسانی کی یہ شخصیت جمہوری طریقہ سے منتخب ہوکر ڈکٹیٹر کے درجہ پر فائز ہوا،نیشنل سوشلسٹ جرمن وکرز پارٹی کا لیڈر ایڈولف ہٹلر 1930کے انتخابات میں منتخب ہوکر جرمنی کا وزیر اعظم(چانسلر۔ جرمنی میں آج بھی وزیر اعظم کے درجہ کے عہدہ کو چانسلر کہا جاتا ہے) بنا اس وقت جرمنی کے صدر پال وان ہڈنبرگ تھے،1934 میں صدر پال وان ہڈنبرگ کے انتقال کے بعد ہٹلر نے انابلنگ ایکٹ آف1933 کے تحت چانسلر کے عہدہ کو صدارت کے ساتھ ضم کردیا ، ہٹلر کا یہ اقدام سراسر قانونی تھا ، ہٹلر ایک سیاسی پارٹی نیشنل سوشلسٹ جرمن وکرز پارٹی کا نمائیدہ تھا ، اسی پارٹی کو انگریزی میں NAZI پارٹی کہا جاتا ہے،تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھتے ہیں تو ہٹلر کے تعلق سے کچھ دلچسپ اور حیرت انگریز باتیں پتہ چلتی ہیں۔ اس کی شخصیت کو ہمیشہ منفی نظرو ں سے دیکھا جاتا ہے جبکہ وہ ایک بہت قابل اور دلیر انسان تھا۔ لیکن اس میں کچھ خامیاں بھی تھیں جسے مورخین نے زیادہ نمایاں کیا۔

مورخین کے مطابق ہٹلر ایک نہایت ذہین شاطر عیار ظالم اذیت پسند خصوصیات کا حامل شخص تھا، اس کی شخصیت کو کرشمائی شخصیت کہا جاتا ہے ، جب وہ لاکھوں کے مجمع کے سامنے تقریر کے لئے کھڑا ہوتا تھا تو گویا پورے مجمع پر جادو کردیتا تھا ، الفاظ ہٹلر کے لئے کھلونا تھے اور انداز بیان اتنا دلچسپ کا مجمع محصور ہوکر رہ جاتا تھا۔ ہٹلر کی مقبولیت کی بنیاد اس کی پارٹی کے نظریات تھے اور آئیندہ چل کر انھیں نظریات کی بنا پر نہ صرف جرمنی کے دو ٹکرے ہوئے بلکہ تاریخ انسانی کی بدترین شخصیتوں میں ہٹلر کا شمار ہوا، آج بھی جس طرح مسلمانوں میں یزید کا نام ایک لعنت سمجھا جاتا ہے مغربی اقوام کے لئے ہٹلر کا نام اسی طرح لعنت تسلیم کیا جاتاہے، 1945میں ہٹلر کے خاتمہ کے بعد شاید کسی ماں نے اپنے بچہ کا نام ہٹلر نہیں رکھا ہو۔

ہٹلر کے ناجی نظریات جن کے سامنے پوری جرمنی کی قوم آمنا صدقنا زندہ باد کے نعرہ لگاتی تھی ان نظریات کا کفارہ یہ قوم اب تک ادا کر رہی ہے اور آج کی جرمنی کی نسل اپنے اجداد کی غلطی پر آج تک شرمندہ اور اقوام عالم کے سامنے طلب گار معافی بنی ہوئی ہے ۔یہودیوں کا ماننا ہے کہ ہٹلر نے جرمی اور پولینڈ میں ساٹھ لاکھ یہودیوں کو قتل کیا اسی نسل کشی کو یہودی Holocaust. کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

ہٹلر کی شخصیت کا ایک پہلو اور ہے جس سے عام لوگ بہت کم واقف ہیں۔ ہٹلر جہاںایک ذہین اور فتین سیاستدان تھا وہیں اس کی معاشی اصلاحات نے اس کے اقتدار کے اولین سالوں میں ہی جرمنی کو معاشی طاقت اور اہل جرمن کو خوشحال بنا دیا تھا، یہ معاشی ترقی بھی ہٹلر کی مقبولیت کی بڑی وجہ بنی۔

ہٹلر کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ ایک بہت اچھا پینٹر تھا.

مزید دیکھیں[ترمیم]