سلمان تاثیر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
:چھلانگ بطرف رہنمائی، تلاش
سلمان تاثیر

سلمان تاثیر اکتوبر 2009ء میں

در منصب
15 مئی 2008 – 4 جنوری 2011
پیشرو خالد مقبول

پیدائش لاہور ، پنجاب (پاکستان) ، برطانوی ہند
وفات 4 جنوری 2011(2011-01-04)
اسلام آباد ، پاکستان
نژادیت پنجابی
سیاسی جماعت Flagge der Pakistanischen Volkspartei.svg پاکستان پیپلز پارٹی
ازواج تَولین سنگھ ، آمنہ تاثیر
بچے آتش تاثیر ، مریم ، شہریار ، شہباز ، سارہ ، صنم ، شہر بانو
سکونت گورنر ہاؤس لاہور (سرکاری)
مادر علمی چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ ، لندن سے [1]
مذہب اسلام
ویب سائٹ سلمان تاثیر کا ذاتی موقع جال

پیدائش: 12 جون 1946
وفات: 4 جنوری 2011


سلمان تاثیر ایک پاکستانی کاروباری شخصیت اورسیاستدان تھے۔ ان کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے رہا اور جنہوں نے صوبہ پنجاب کے چھبیسویں گورنر کے فرائض انجام دئیے-

ابتدائی زندگی[ترمیم]

سلمان تاثیر 31 مئی 1944 کو برطانوی ہندوستان کے شہر شملہ میں پیدا ہونے- ان کے والد ایم ڈی تاثیر امرتسر کے ایم-اے-او کالج میں پروفیسر تھے جنہوں نے برطانیہ سے پی-ایچ-ڈی کی- انکی والدہ بلقیس کرسٹوبیل تاثیر ایک انگریز خاتوں اور فیض احمد فیض کی شریک حیات ایلس فیض کی ہمشیرہ تھیں-[2]

سیاسی تاریخ[ترمیم]

سلمان تاثیر پاکستان کے صوبہ پنجاب کے گورنر تھے۔ آپ نے گورنر کا حلف 15 مئی 2008 کو اٹھایا جب پرویز مشرف نے آپ کو گورنر مقرر کیا۔ اس سے پہلے سلمان تاثیر 1988 کے انتخابات میں میں پیپلز پارٹی کی طرف سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ وہ پیپلز پارٹی کی (1964-2011) طرف سے کئی الیکشن لڑ چکے ہیں تاہم مشرف دور کی نگراں حکومت میں وزیر بھی رہے۔ آپ فرسٹ کیپیٹل اور ورلڈ کال گروپ کے چیرمین تھے۔ آصف علی زرداری کے صدر بننے کے بعد بھی آپ گورنر رہے اور پیپلز پارٹی کے ترجمان و نمائندہ۔

کاروباری زندگی[ترمیم]

سلمان تاثیر نے متعدد چارٹرڈ اکاونٹنگ اور کنسلٹنسی فرمز قائم کریں- اس میں سرفہرست بینالاقوامی اکاونٹنگ فرم کے-پی-ایم-جی کی پاکستانی شاخ کی بنیاد رکھی جوکہ آج تک ان کے نام سے منسوب ہے اور تاثیر-ہادی کے نام سے جانی جاتی ہے-

سوچ[ترمیم]

آپ کی سیاسی وابستگی پیپلز پارٹی سے رہی۔ قانون کی حکمرانی بارے آپ کی سوچ آپ کے اس بیان سے عیاں ہوتی ہے جو 2010ء میں آپ نے بطور گورنر پنجاب جامع فیصل آباد کے طلبا سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان پر امریکی ڈرون حملوں پر دیا[3]

پاکستان کے عوام ڈرون حملوں کی طرف نہ دیکھیں، امریکہ سے ملنے والی امداد پر توجہ دیں

قتل[ترمیم]

سلمان تاثیر نے ٢٠١٠ میں پاکستان میں ناموس رسالت قانون توہین رسالت کی شدید مخالفت کی اور اس میں فوجی آمر ضیاالحق کے دور میں کی کی گئی ترمیم کو کالا قانون قرار دیا- اس کے نتیجہ میں علماء کی ایک بڑی تعداد نے اسے واجب القتل قرار دیدیا اور 4 جنوری 2011ء کو اس کے ایک محافظ ملک ممتاز حسین قادری نے اسلام آباد کے علاقے ایف-6 کی کوہسار مارکیٹ میں اسے قتل کر دیا- متعدد مذہبی سیاسی جماعتوں اور طالبان سمیت کئی دہشتگرد تنظیموں کی طرف سے تنبیہ اور دھمکی کے باوجود اس کی نماز جنازہ میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سمیت پیپلز پاڑٹی کے ہزاروں جیالوں اور خاص و عام افراد نے شرکت کی-[4] نماز جنازہ افضل چشتی نے پڑھائی- اور نماز جنازہ پڑھنے والے متعدد افراد نے توبہ کر کے تجدید ایمان کی۔

سلمان تاثیر قتل کی دلیل[ترمیم]

سلمان تاثیر نے براہ راست کوئی گستاخی رسول نہیں کی تھی۔ انہیں قتل کرنے کے لیے واحد دلیل ذیل کی روایت دی گئی جو کہ سورہ النساء کی آیت ٦٥ کی تفسیر کے ذیل میں بیان کی جاتی ہے:

واقعہ کچھ اس طرح سے تھا کہ ایک یہودی اور ایک مسلمان میں ایک تنازعہ ہوا. نبی کریم صلی اللہ الہی وسلم نے یہودی کے حق میں فیصلہ دیا. مسلمان جو کہ در حقیقت منافق تھا اس فیصلے سے مطمین نہ تھا اور حضرت عمر فاروقؓ کے پاس جا کر اپنے حق میں فیصلہ لینے کا ارادہ کیا. سوچا کہ حضرت عمرؓ ایک یہودی کو مسلمان پر ترجیح نہ دیں گے. وہ لوگ حضرت عمر فاروقؓ کے پاس گئے اور سارا ماجرا بیان کیا کہ کس طرح نبی کریم(ص) نے اس مقدمے کا فیصلہ یہودی کے حق میں دے دیا اور وہ منافق اس فیصلے پر مطمین نہ تھا اور حضرت عمر رض سے اپنے حق میں فیصلہ لینا چاہتا تھا. سیدناعمرؓ نے یہ سنا تو تلوار نکالی اور اس منافق کی گردن اڑا دی. اس معاملے کا ہر جگہ ذکر ہوا اور بات پھیل گئی کہ حضرت عمر فاروقؓ نے ایک مسلمان کا نا حق خون کر دیا . حضرت عمر رسول (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول (ص)! عمر نے ایک ایسے شخص کو قتل کیا ہے جو کلمہ پڑھتا تھا، نماز پڑھتا تھا اور روزے رکھتا تھا، مگر آپ جانتے ہیں عمر نے کسی مسلم کو قتل نہیں کیا . کیونکہ وہ مسلم ہو ہی نہیں سکتا کہ جس کو آپکے فیصلے سے اتفاق نہ ہو ” اللہ سبحانہ تعالیٰ کو سیدنا عمر فاروق کی یہ بات اس قدر پسند آئی کہ حضرت جبرئیل علیہ سلام سورہ نسا کی یہ آیت لے کر نازل ہوئے ؛ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ( سورہ النساء – آیت ٦٥ ) [سورۃ النساء 4:65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے.

چنانچہ اس طبقے کی دلیل یہ ہے کہ سلمان تاثیر نے نبی (ص) کے فیصلے سے عدم اتفاق کیا ہے اور اس لیے ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کا قتل بالکل درست کیا ہے، اور اسی لیے سلمان تاثیر کی نمازِ جنازہ نہیں۔

سلمان تاثیر قتل میں "ضعیف" روایت کا کردار[ترمیم]

حضرت عمر والی اس روایت کے متعلق اصل حقائق یہ ہیں کہ:۔

  • یہ روایت ضعیف ہے (اس میں ایک روای ابن لهيعة ہے جو ضعیف ہے)
  • یہ روایت غریب ہے اور فقط ابن الاسود سے مروی ہے۔
  • یہ روایت منکر ہے (یعنی ایسی روایت جو نہ صرف یہ کہ ضعیف ہو، بلکہ کسی صحیح روایت کے مخالف بھی ہو)
  • اس روایت کو ثابت کرنے کے لیے ایک اور روایت پیش کی جاتی ہےجو کہ ضمرة بن حبيب سے مروی ہے۔ مگر ضمرۃ نے رسول اللہ (ص)کا دور نہیں پایا ہے، لہذا یہ لائق اعتماد نہیں۔ (اس راوی کی وفات 130 ہجری میں ہوئی ہے، یعنی رسول (ص) کی وفات کے 117 سال کے بعد)

یہ آیت نازل ہوئی جب صحابی حضرت زبیر اور ایک بدری صحابی حضرت حاطب کے مابین تنازعہ ہوا تھا اور اس کی تفسیر میں امام بخاری نے اپنی صحیح میں پورا واقعہ دوصحیح اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے۔

سعودی عرب سے اردو میں قران بمع ترجمہ اور تفسیر شائع ہوا ہے (تفسیر کی ہے صلاح الدین صاحب نے)۔ سعودی حکومت نے لاکھوں کی تعداد میں یہ قرآن چھپا کر مفت تقسیم کیا ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں صلاح الدین صاحب لکھتے ہیں:۔

اس آیت کا شان نزول ایک یہودی اور مسلمان کا واقعہ عموماً بیان کیا جاتا ہے جو بارگاہ رسالت سے فیصلے کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ سے فیصلہ کروانے گیا جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس مسلمان کا سر قلم کر دیا۔ لیکن سنداً یہ واقعہ صحیح نہیں ہے جیسا کہ ابن کثیر نے بھی وضاحت کی، صحیح واقعہ یہ ہے جو اس آیت کے نزول کا سبب ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ کا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد تھے۔ اور ایک آدمی کا کھیت کو سیراب کرنے والے (نالے) کے پانی پر جھگڑا ہو گیا۔ معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا آپ نے صورت حال کاجائزہ لے کر جو فیصلہ دیا تو وہ اتفاق سے حضرت زبیر رضی اللہ کے حق میں تھا، جس پر دوسرے آدمی نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ اس لئے کیا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پھوپھی زاد ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(صحیح بخاری، کتاب التفسیر)۔امام بخاری نے یہ واقعہ دو مختلف اسناد کے ساتھ اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ "Profile of new Punjab Governor". APP. http://www.app.com.pk/en_/index.php?option=com_content&task=blogcategory&id=74&Itemid=100۔ اخذ کردہ بتاریخ 2010-07-28.
  2. ^ "Stephen Sackur Interviews Shehrbano Taseer". BBC. 30 April. 2011. http://www.bbc.co.uk/programmes/p00g6zs0۔ اخذ کردہ بتاریخ 30 April 2011.
  3. ^ روزنامہ جنگ، "عرفان صدیقی: نقش خیال: کیا بے حمیتی کی کوئی حد نہیں ہوتی"
  4. ^ [Sana Saleem, "Salmaan Taseer: murder in an extremist climate", The Guardian, 5 January 2011. Retrieved 2011-01-07.

اندرونی حوالہ جات[ترمیم]

بیرونی حوالہ جات[ترمیم]





سیاسی دفاتر
پیشتر
خالد مقبول
گورنر پنجاب
2008 – 2011
اگلا
سردار لطیف کھوسہ