چند ماہ قبل ایک امریکی صحافی شاہدخان سے انٹرویو لینے گیا۔ شاہد خان کو

شاہد خان

چند ماہ قبل ایک امریکی صحافی شاہدخان سے انٹرویو لینے گیا۔ شاہدخان کو ڈینویل شہر میں کچھ کام تھا، لہٰذا وہ اسے بھی ساتھ لے گئے۔ جب دونوں کار میں بیٹھے ڈینویل کے صنعتی علاقے سے گزرے، تو شاہدخان امریکی صنعت کے زوال پر گفتگو کرنے لگے۔ وہ ایک پرانی عمارت کی سمت اشارہ کرکے بولے ’’وہاں ایوتھ۔ پروٹی پلانٹ واقع تھا جو بند ہو چکا۔ یوں ۱۴۰۰ افراد بیروزگار ہوئے۔‘‘

شاہدخان پھر بتاتے چلے گئے کہ اس کارخانہ میں ۲ ہزار مزدور تھے، وہ بھی بند ہوا۔ فلاں وئیرہائوس کی بندش سے ایک ہزار کارکن اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ غرض ڈینویل صنعتی علاقہ لٹے پٹے کارخانوں اور اداروں کا قبرستان بن چکا تھا۔ یہ صنعتی علاقہ کبھی بھرا پُرا اور زندگی سے بھرپور تھا، لیکن اب وہاں اُلّو بولتے تھے۔

لمبے قد، بھاری ڈیل ڈول اور تلوارمارکہ مونچھوں والے شاہدخان پُرکشش شخصیت کے مالک ہیں۔ اب یہ ۶۲ سالہ صنعت کار شاندار گاڑی چلا رہا تھا جو ہر قسم کی سہولیات رکھتی تھی۔ اندر کا ماحول باہر والے ویرانی اور بربادی کے مناظر سے یکسر مختلف تھا۔ شاہدخان کی داستان حیات مایوس لوگوں کے لیے اُمید اور خوشیوں کا انمول پیغام بھی رکھتی ہے۔

ء ۲۰ سال پیشتر جب ڈینول اور ریاست اینسوائے کے دیگر شہروں میں صنعتی زوال جڑ پکڑ چکا تھا، اسی وقت شاہدخان کے ترقی و خوشحالی والے سفر کا آغاز ہوا۔ اگرچہ یہ سفر صعوبتوں اور رکاوٹوں سے پُر تھا۔ تاہم نوجوان شاہدخان نے محنت، مستقل مزاجی اور ذہانت کے بل بوتے پر تمام مشکلات کا مقابلہ کیا اور آخرکار کامیاب ٹھہرے۔

شاہدخان گاڑیوں کے فاضل پرزہ جات بنانے والی ایک بڑی امریکی کمپنی، فلیکس این گیٹ کے مالک ہیں۔ جب شاہدخان نے یہ کمپنی خریدی، تو وہ دیوالیہ ہو چکی تھی۔ شاہدخان نے نئے سرے سے اُسے کھڑا کیا اور آج یہ کمپنی شمالی امریکا میں فاضل پرزہ جات بنانے والی بڑی کمپنیوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس کے ’’۵۲ کارخانے‘‘ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں جن میں ’’۱۳ ہزار‘‘ لوگ کام کرتے ہیں ۔
۲۰۱۱ء میں فلیکس این گیٹ نے ۳ ارب ۴۰ کروڑ ڈالر (۳۲۶ ارب ۴۰ کروڑ روپے) کا مال فروخت کیا۔ امرا کی جائیدادوں کا حساب لگانے والے مشہور امریکی رسالہ، فوربس  کے مطابق آج شاہد خان ۵ئ۲ ارب ڈالر (۲۴۰ ارب روپے) کی جائیداد رکھتے ہیں۔ گویا شاہدخان امریکی ارب پتیوں میں شامل ہوچکے۔ جبکہ ہمارے حساب سے انھیں امیرترین پاکستانی ہونے کا اعزاز حاصل ہوگیا۔
شاہدخان کی داستان جدوجہد بے مثال کامیابیوں سے عبارت ہے۔ وہ سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا نہیں ہوئے بلکہ ان کا تعلق پاکستانی متوسط طبقے سے ہے۔ والد نے عمر بھر کی جمع پونچی خرچ کرکے ہونہار بیٹے کو امریکا بھجوایا تاکہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکے۔ بیٹے نے تعلیم مکمل کی، تو پھر امریکا ہی میں بس گیا اور وقت نے ثابت کیا کہ شاہد خان کا فیصلہ درست تھا۔

پچھلے ڈیڑھ دو سو برس میں امریکا میں لاکھوں خاندان اچھے مستقبل کی تلاش میں پہنچے۔ وہ بُرے حال میں تھے لیکن ان کے ارکان نے اپنی محنت اور ذہانت سے نئی دنیا بسائی اور دولت، عزت و شہرت پائی۔ امریکا بھر میں کامیابی کی یہ بکھری ہوئی شاندار مثالیں عیاں کرتی ہیں کہ ہنرمند اور محنتی مہاجر ملازمتیں لیتے نہیں بلکہ پیدا کرتے ہیں اور اس دلیل کی ایک بڑی مثال شاہدخان ہیں۔

شاہدخان کی کامیابیوں کا سفر ابھی جاری ہے۔ جنوری ۲۰۱۲ء میں انھوں نے امریکی فٹ بال کے سب سے بڑے ٹورنامنٹ نیشنل فٹ بال لیگ (NFL) میں شامل ٹیم، ’’جیگوار‘‘ ۷۰۰ ملین ڈالر (تقریباً ساڑھے سات ارب روپے) میں خریدی۔ یوں انھیں یہ منفرد اعزاز حاصل ہوا کہ وہ کسی بھی اقلیتی نسل سے تعلق رکھنے والے پہلے فرد بن گئے جو این ایف ایل میں کسی ٹیم کے مالک ہیں۔

امریکی عوام نیشنل فٹ بال لیگ کے دیوانے ہیں۔ جب اس چیمپیئن شپ کے مقابلے ہوں، تو وہ سبھی کام چھوڑ کر انھیں دیکھتے ہیں۔ مقابلوں کا فائنل ’’’سپربائول سنڈے‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ ایک مخصوص امریکی چیمپیئن شپ ہے، لیکن یہ امریکا کی آزادی و کھلے پن کا اعجاز ہے کہ ایک پاکستانی بھی اس دنیا میں داخل ہوگیا۔

تاہم شاہدخان کے نزدیک یہ سودا ان کی کاروباری صلاحیتوں کا امتحان بھی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ این ایل ایف میں جیگوارز ہی سب سے کمزور ٹیم ہے۔ ایک حالیہ جائزے میں صرف ۴ئ۰ فیصد لوگوں نے جیگوارز کو اپنی پسندیدہ ٹیم قرار دیا۔ یوں وہ کل ۳۲ ٹیموں میں سے آخری نمبر پر آئی۔

مزیدبرآں جیگوارز کی مارکیٹ بھی زیادہ بڑی نہیں، صرف جیکسن ویل شہر کا میٹروپولٹین علاقہ اس کا گڑھ ہے۔ اس علاقہ کی آبادی تقریباً ۱۵ لاکھ ہے۔ ٹیم کی بدقسمتی کہ ۲۰۰۷ء سے اس نے کوئی میچ نہیں جیتا اور نہ ہی وہ کبھی فائنل میں پہنچی ہے۔ ان خامیوں کے باوجود شاہدخان پُرامید ہیں کہ ان کا منصوبہ ٹیم کو نئی بلندیوں اور کامرانیوں تک لے جائے گا۔

[to_like id=”14254″]

لاہور سے الینوائے تک

شاہدخان ۱۹۵۰ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ میٹرک کیا، تو انھیں الینوائے یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ جب وہ نئے دیس میں پہنچے تو ان کی جیب میں صرف ۵۰۰ ڈالر تھے۔ والد ٹھیکے داری کرتے تھے اور انھوں نے بڑی مشکل سے یہ رقم جمع کرکے بیٹے کو دی تھی۔
جب شاہد یونیورسٹی پہنچے تو ہوسٹل بند تھا، لہٰذا انھوں نے مقامی وائی ایم سی اے میں قیام کیا۔ وہاں رات کا کھانا اور کرایہ کمرا ۳ ڈالرمیں پڑا۔ جب شاہد نے یہ رقم پاکستانی کرنسی میں تقسیم کی تو اُن کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ انھوں نے سوچا کہ اگر اخراجات کی رفتار یہی رہی، تو ۵۰۰  ڈالر ختم ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔

لیکن اگلے دن باورچی خانے میں انھیں پہلے امریکی کرشمہ کا سامنا ہوا۔ انھیں ایک ساتھی سے یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ وہ ایک گھنٹہ برتن دھو کر ڈیڑھ ڈالر کما سکتے تھے۔ گویا وہ چند گھنٹے برتن دھونے سے خرچ کی گئی رقم پا لیتے۔ وہ بتاتے ہیں ’’یہ جان کر مجھے آکسیجن مل گئی۔‘‘

شاہدخان پھر دل و جان سے تعلیم حاصل کرنے لگے۔ ان کا شمار یونیورسٹی کے قابل اور ہونہار طلبہ میں ہوا۔ دوران تعلیم ہی ان کی ملاقات ایک مہذب اور خوبرو دوشیزہ ، این کالرن خان سے ہوئی۔ دونوں ایک دوسرے کو دل دے بیٹھے۔ محبت نے جلد ہی انھیں شادی کے بندھن میں باندھ دیا۔ آج وہ دو نوجوان بیٹوں، شنا اور ٹونی کے فخرمند والدین ہیں۔ ء۲۱ ویں سالگرہ سے ایک ماہ قبل شاہد خان نے صنعتی انجینئرنگ میں گریجوایشن کرلی۔ چونکہ ان کے علم کا چرچا تھا لہٰذا گاڑیوں کے سپیرپارٹس بنانے والی مقامی کمپنی، فلیکس این گیٹ میں بحیثیت انجینئرنگ مینیجر ملازمت مل گئی۔

اس وقت کمپنی کے انجینئر تقریباً ۱۵ ٹکڑے ویلڈ کر کے گاڑیوں کے بمپر بناتے تھے۔ یہ بمپر دیرپا ثابت نہ ہوتے اور جلد ٹوٹ جاتے۔ شاہد خان نے ٹکڑوں کی تعداد کم کر دی لیکن محنت کا انھیں کوئی خاص صلہ نہ ملا۔ بہرحال وہ ۷  سال تک کمپنی سے وابستہ رہے۔ اس دوران انھیں گاڑیوں کے فاضل پرزہ جات بنانے کا خاصا تجربہ حاصل ہوگیا۔

۱۹۷۸ء میں شاہد خان نے فلیکس این گیٹ سے علحٰدہ ہو کر اپنی کمپنی، بمپرورکس کی بنیاد رکھی۔ اسے قائم کرنے کی خاطر وہ اپنی جمع پونجی، ۱۶ ہزار ڈالر اور بینک قرضہ ۵۰ ہزار ڈالر بروئے کار لائے۔ یہ چھوٹی سی کمپنی تھی لیکن اس نے ایک کارِ نمایاں کر دِکھایا… یہ کہ سٹیل کے ایک ہی ٹکڑے سے گاڑیوں کا بمپر بنانے میں کامیاب رہے۔ اب ایندھن بچانے کے لیے ایسے ہی بمپر ضروری تھے لہٰذا بہت جلد بمپرورکس کو گاہک مل گئے۔ ان میں جنرل موٹرز جیسا بڑا ادارہ بھی شامل تھا۔

تاہم شاہد صاحب کو جلد ہی گمبھیر مسئلہ کا سامنا کرنا پڑا۔ ہوا یہ کہ فلیکس این گیٹ نے تجارتی راز چرانے کے الزام میں ان پر مقدمہ کھڑا کردیا۔ یہ سراسر بدنیتی پر مبنی تھا۔ کمپنی مالکان کو یقین تھا کہ اچھا وکیل نہ کرنے کے باعث شاہد خان مقدمہ ہار جائیں گے لیکن شاہدخان صاحب نے خود کمر کس لی۔ رقم کی شدید کمی تھی لہٰذا عدالتی معاملات نمٹانے کے لیے انھوں نے سستا ترین وکیل کیا اور بمپرورکس کا دفاع خود کرنے لگے۔ وہ صبح اپنا کاروبار دیکھتے اور رات کو چند گھنٹے اپنی مادرعلمی کی لائبریری میں گزارتے جہاں قانونی کتب ان کے زیرِمطالعہ رہتیں۔

مقدمہ ۲  برس چلا۔ شاہد ہر مرحلہ جیتتے چلے گئے لیکن ان کے سر سے خطرہ نہ ٹلا۔ انھیں یہی دھڑکا لگا رہا کہ کہیں مخالفین مقدمہ نہ جیت جائیں۔ یہ خطرہ ٹالنے کی خاطر ۱۹۸۰ء میں شاہد خان نے اِدھر اُدھر سے رقم پکڑی اور فلیکس این گیٹ خرید لی۔ تب کمپنی ہر ماہ ۵۰ ہزار ڈالر خسارہ میں جا رہی تھی۔

شاہد صاحب نے فیصلہ کیا کہ وہ کمپنی کو منافع بخش بنا کر رہیں گے۔ چنانچہ وہ اپنے ادارے کے فاضل پرزہ جات میں نہ صرف جدتیں لائے بلکہ انھیں زیادہ سے زیادہ پائیدار بھی بنایا۔ اعلیٰ معیار کے باعث گاڑیاں بنانے والے تمام بڑے امریکی ادارے اپنی مصنوعات میں شاہدخان کی کمپنیوں کے تیار کردہ بمپر اور فاضل پرزہ جات ہی استعمال کرنے لگے۔ ان میں جنرل موٹرز، ٹویوٹا اور مزدا نمایاں ہیں۔
کاروبار بڑھانے کے سلسلہ میں شاہد خان کا قول ہے ’’آپ کو اپنے شعبہ میں نمبر ایک کو چِت کرنے کی ضرورت نہیں، بس اپنے سے اگلے کو پیچھے چھوڑنے کا سوچیے۔ یوں کبھی نہ کبھی آپ بھی نمبر ایک ہو سکتے ہیں۔‘‘ آج امریکا میں ہر سال فروخت ہونے والی ۵۰ سے ۶۰ فیصد گاڑیوں میں شاہد خان کی کمپنیوں کے بنائے ہوئے سپیئرپارٹس ہی لگتے ہیں۔

جیگوارز کی خریداری

شاہد خان کو امریکی فٹ بال کھیل بہت پسند ہے۔ جب دولت آئی، تو ان میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ این ایف ایل کی کسی ٹیم کے مالک بنیں۔ ۲۰۱۰ء میں انھوں نے چمپئن شپ کی ایک ٹیم، ریمز  خریدنی چاہی، لیکن اس کے سفیدفام مالکوں نے تعصب کی وجہ سے ان کی بولی مسترد کر دی۔

اکتوبر ۲۰۱۱ء میں پھر جیگوارز کی فروخت کا معاملہ اٹھا۔ اس بار شاہد خان نے پتے دانش مندی سے کھیلے اور کامیابی پائی۔ اب وہ اپنی فٹ بال ٹیم کو بڑی ٹیموں میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ اس ضمن میں ۳۰ سالہ بیٹا ٹونی ان کا مددگار ہے۔
شاہدخان کو علم ہے کہ جیگوارز کو بہترین ٹیموں میں شمار کرانا آسان نہیں۔ لیکن وہ امریکا کو مواقع کی جنت سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’’آپ وہاں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ بس ضروری ہے کہ سخت محنت کی جائے اور تھوڑی سی خوش قسمتی بھی ساتھ ہو۔ تب کرشمہ جنم لینا مشکل نہیں۔

[/to_like]

Check Also

executive editor note sep2019

ایگزیکٹیو ایڈیٹر نوٹ…حیاتِ نو…ستمبر ۲۰۱۹

  حیاتِ نو تیرہویں صدی میں منگول عالم اسلام پر حملہ آور ہوئے تو وسط …